۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
جنت البقیع

حوزہ/ آل سعود کی بوکھلاہٹ اور شکست کا کھلا ہوا ثبوت ہیکہ وہ شمع حیات عصمت کو گل کرنے کے بعد انکے نشان قبر کو بھی مٹا دینا چاہتی ہے نسل سفیان کب چاہے گی کہ نسل عمران کے مزاروں سے ہدایت کی روشنی جاری و ساری رہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری تاراگڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی | اس سال آٹھ شوال المکرم سن ١٤٤٤ ھجری کو انہدام جنت البقیع کو پورے سو سال مکمل ہو رہے ہیں آٹھ شوال المکرم سن ١٣٤٣ کو چشم تاریخ نے دیکھا ظلم و ستم کا ننگا ناچ ،وحشت و دہشت کی خونی داستان ،جبر استبداد کا کھلا ہوا مظاہرہ ،انسانیت و شرافت کا ڈوبتا ہوا سورج ،عدل و انصاف کی آبرووں کا خاتمہ اور عداوتوں کی انوکھی کہانیاں۔

ظلم کا عجیب و غریب منظر

انسان کا حیوان سے بدتر ہوجانا ،دشمنیوں کا اک گھینونہ کھیل ،افراد پر نشتر زنی ، تیر اندازی ،تلوار بازی ،واروں پہ وار ،جسموں کے ٹکڑے ، لاشوں کی پایمالی یہ سب تو چشم پر نم نے دیکھا ،یہ سارے منظر چشم فلک نے دیکھے ، کلک قلم نے لکھے، نشرو اشاعت نے زیب قرطاس بھی کیے اور گوش احساس سے ٹکراے بھی مگر عقل و خرد نے کبھی یہ نا سوچا ہوگا کہ کوءی قوم اسقدر بھی گر سکتی ہیکہ اسے معصوم ذوات سے اس قدر عداوت و کینہ ہوگا کہ یہ نسل ہندہ اپنی دادی سے بھی عمل کے شنیع ہونے میں ایک پایہ دان آگے ہوگی قتل وغارت گری جن کے ضمیر و خمیر میں صلب پدر سے رحم‌ مادر تک نمو پاءی ہو ، جو نطفہ سے مردہ ہونے تک کی ساری منزلوں میں خباثت میں ڈوبے رہے ہوں جب وہ بدبودار ،خاردار ،جھاڑیوں کی پیداوار افراد ،حسد کی آگ ،کینہ کی آتش فشاں میں جل بھن کر پروان چڑھیں ہوں تو ان سے کس بات کی امید کی جا سکتی ہے گندہ خون اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے آل سعود کے غنڈے ہوں یاسلطنت پر براجمان دہشت گرد نیچتا اور گری ہوءی حرکت یہ ہیکہ لوگ عمارتوں کے تقدس کو پایمال کرنے کے لیے طرح طرح کے حربہ اپناتے رہے جن کے صدقہ میں کاینات کو زیور وجود سے آراستہ کیا گیا انکا قبروں میں آرام کرنا بھی دشمن قوم کو برداشت نہ ہوا، آل سعود کی بوکھلاہٹ اور شکست کا کھلا ہوا ثبوت ہیکہ وہ شمع حیات عصمت کو گل کرنے کے بعد انکے نشان قبر کو بھی مٹا دینا چاہتی ہے نسل سفیان کب چاہے گی کہ نسل عمران کے مزاروں سے ہدایت کی روشنی جاری و ساری رہے۔

خیبر کی شکست خوردہ نسلیں ،یہودیت اور سعودیت کی نجس اولادیں سواء قبروں کے مسمار کرنے اور عالیشان مناروں کے انہدام کےکر بھی کیا سکتی ہے۔

جو ظرف میں ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے بطن فسق و فجور سے ایمان کے ذروں کا کیا واسطہ ، نجاست کا طہارت سے کیا ربط ، جہالت کو علم سے کیا مطلب ، اندھیروں کو اجالوں سے کیا سروکار ، ظلم کو عدل سے کیا لینا دینا ، دین کی رگوں میں اپنا لہو دیکر پروان چڑھانے والے کہاں اور اسلام کی رگوں سے خون چوس کر بطن سلطنت بھرنے والے غندڈے کہاں!

اولاد شیر خدا و رسول اور شہید حمزہ کی عظمت کجا اور ہندہ جگر خوارہ کے پیٹ سے جننے والے نسل آل سعود و یہود کجا!

تعجب ہوتا جب دنیا میں انصاف کا ڈھینڈورا پیٹنے والی عالمی تنظیمیں اس قسم کے جرایم پر مجرمانہ خاموشی کا بڑی جرات سے اظہار کرتی ہیں ، حقوق الناس کا نعرہ دینے والی اصلاحی تنظیمیں قبروں کی مسماری پر ایک صدی سے کیوں خاموش ہیں مسجدوں کے شہید کرنے والے لوگ کس وچار دھارا سے تعلق رکھتے ہیں کس مذہب نے دوسروں کی عبادت گاہوں کو گرانے اور ڈھانے کی اجازت دی ہے ، کیا شعور انسانی میں احترام مذاہب کا احساس قدرت نے ودیعت نہیں کیا ہے؟ کیوں آج کا بے حس انسان مفاد پرستی کے بازار میں عقیدہ فروشی کررہا ہے ؟

عہدہ کی آرزو ،پارٹی کی رفعت ، دولت کا حصول ،شہرت کی طلب اور ،ناجایز مناصب پر ڈیرا ڈال کر براجمان ہونے کی ہوس نے عمارتوں کو عبادت خانوں کو عبرتیں پردان کرنے والی عظمتوں کے مناروں کا ڈھا دینا انکی سرشت میں چھپی ہندہ صفت عداوت کا آءینہ دار ہے.

جاری ہے۔۔۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .